Urdu Deccan

Friday, February 19, 2021

آرزو لکھنوی

 یوم پیدائش 17 فروری 1873


معصوم نظر کا بھولا پن للچا کے لبھانا کیا جانے

دل آپ نشانہ بنتا ہے وہ تیر چلانا کیا جانے


کہہ جاتی ہے کیا وہ چین جبیں یہ آج سمجھ سکتے ہیں کہیں

کچھ سیکھا ہوا تو کام نہیں دل ناز اٹھانا کیا جانے


چٹکی جو کلی کوئل کوکی الفت کی کہانی ختم ہوئی

کیا کس نے کہی کیا کس نے سنی یہ بتا زمانہ کیا جانے


تھا دیر و حرم میں کیا رکھا جس سمت گیا ٹکرا کے پھرا

کس پردے کے پیچھے ہے شعلہ اندھا پروانہ کیا جانے


یہ زورا زوری عشق کی تھی فطرت ہی جس نے بدل ڈالی

جلتا ہوا دل ہو کر پانی آنسو بن جانا کیا جانے


سجدوں سے پڑا پتھر میں گڑھا لیکن نہ مٹا ماتھے کا لکھا

کرنے کو غریب نے کیا نہ کیا تقدیر بنانا کیا جانے


آنکھوں کی اندھی خود غرضی کاہے کو سمجھنے دے گی کبھی

جو نیند اڑا دے راتوں کی وہ خواب میں آنا کیا جانے


پتھر کی لکیر ہے نقش وفا آئینہ نہ جانو تلووں کا

لہرایا کرے رنگیں شعلہ دل پلٹے کھانا کیا جانے


جس نالے سے دنیا بے کل ہے وہ جلتے دل کی مشعل ہے

جو پہلا لوکا خود نہ سہے وہ آگ لگانا کیا جانے


ہم آرزوؔ آئے بیٹھے ہیں اور وہ شرمائے بیٹھے ہیں

مشتاق نظر گستاخ نہیں پردہ سرکانا کیا جانے


آرزو لکھنوی


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...