یوم پیدائش 17 فروری 1873
معصوم نظر کا بھولا پن للچا کے لبھانا کیا جانے
دل آپ نشانہ بنتا ہے وہ تیر چلانا کیا جانے
کہہ جاتی ہے کیا وہ چین جبیں یہ آج سمجھ سکتے ہیں کہیں
کچھ سیکھا ہوا تو کام نہیں دل ناز اٹھانا کیا جانے
چٹکی جو کلی کوئل کوکی الفت کی کہانی ختم ہوئی
کیا کس نے کہی کیا کس نے سنی یہ بتا زمانہ کیا جانے
تھا دیر و حرم میں کیا رکھا جس سمت گیا ٹکرا کے پھرا
کس پردے کے پیچھے ہے شعلہ اندھا پروانہ کیا جانے
یہ زورا زوری عشق کی تھی فطرت ہی جس نے بدل ڈالی
جلتا ہوا دل ہو کر پانی آنسو بن جانا کیا جانے
سجدوں سے پڑا پتھر میں گڑھا لیکن نہ مٹا ماتھے کا لکھا
کرنے کو غریب نے کیا نہ کیا تقدیر بنانا کیا جانے
آنکھوں کی اندھی خود غرضی کاہے کو سمجھنے دے گی کبھی
جو نیند اڑا دے راتوں کی وہ خواب میں آنا کیا جانے
پتھر کی لکیر ہے نقش وفا آئینہ نہ جانو تلووں کا
لہرایا کرے رنگیں شعلہ دل پلٹے کھانا کیا جانے
جس نالے سے دنیا بے کل ہے وہ جلتے دل کی مشعل ہے
جو پہلا لوکا خود نہ سہے وہ آگ لگانا کیا جانے
ہم آرزوؔ آئے بیٹھے ہیں اور وہ شرمائے بیٹھے ہیں
مشتاق نظر گستاخ نہیں پردہ سرکانا کیا جانے
آرزو لکھنوی
No comments:
Post a Comment