یوم پیدائش 17 فروری 1964
محبتوں کو بھی وعدوں میں رکھ دیا گیا ہے
کہ جیسے پھول کتابوں میں رکھ دیا گیا ہے
چراغ گھر کی منڈیروں پہ رکھ دیئے گئے ہیں
اور انتظار چراغوں میں رکھ دیا گیا ہے
صدائیں سرد ہواوں کو سونپ دی گئ تھیں
پھر اس ہوا کو دریچوں میں رکھ دیا گیا ہے
جو ایک یاد پرانی سجی تھی کمرے میں
اسے بھی اب تو درازوں میں رکھ دیا گیا ہے
میں اک گماں تھی' فسانے میں ڈھل گئ آخر
وہ ایک خواب تھا ' آنکھوں میں رکھ دیا گیا ہے
میں ایک عرصہ اسی کی سپردگی میں رہی
جو ایک لمحہ خیالوں میں رکھ دیا گیا ہے
اب ان ہواوں میں ہے اس کی گنگناہٹ بھی
پھر اس کا لمس گلابوں میں رکھ دیا گیا ہے
سیما
غزل
No comments:
Post a Comment