اشکوں میں ڈھلا پر یہ زباں تک نہیں آیا
ورنہ تو یہ طوفان کہاں تک نہیں آیا
دنیا نے بہت کچھ ہے لکھا اہلِ جنوں پر
لیکن کوئی الزام یہاں تک نہیں آیا
جب تیرا عدو تیرے نشا نے پہ کھڑا تھا
اچھا ہے ترا تیر کماں تک نہیں آیا
وہ عشق کی آتش تھی کہ جلتا رہا یہ جسم
شعلوں کا دھواں دل کے مکاں تک نہیں آیا
وہ میرے تعاقب میں تو آتا رہا برسوں
میں آج جہاں ہوں وہ وہاں تک نہیں آیا
رکھتا ہے مرے دل کے خرابوں کو جو آباد
نام اس کا کبھی میری زباں تک نہیں آیا
دل میں مرے کچھ وہم بھی آتے رہے فرحت
پر اس سے بچھڑنے کا گماں تک نہیں آیا
No comments:
Post a Comment