کبھی ہے خار مغیلاں کبھی چمیلی ہے
یہ زندگی بھی عجب طرح کی پہیلی ہے
جدھر بھی دیکھئے وحشت ، اداسی ، سناٹا
مری حیات اک اجڑی ہوئی حویلی ہے
شب فراق ! ادھر آ گلے لگا لیں تجھے
جہاں میں تو بھی ہماری طرح اکیلی ہے
لٹا دی اپنے بزرگوں کی میں نے کل میراث
نجومی کہتا ہے روشن مری ہتھیلی ہے
نہیں ہے تم سے کوئی خوف حادثو ! ہم کو
سفر سے پہلے دعا ماں کی ہم نے لے لی ہے
مرے عیال تو فاقہ کشی پہ ہیں مجبور
مرے ضمیر کی اونچی مگر حویلی ہے
دعا ہے اے شب ہجراں ! ہو تیری عمر دراز
مری حیات کی تنہا تو ہی سہیلی ہے
میں اپنے دور کا موسیٰ ہوں شاید اے صابر !
کہ آفتاب کی صورت مری ہتھیلی ہے
صابر جوہری بھدوہوی
No comments:
Post a Comment