Urdu Deccan

Sunday, June 6, 2021

صابر جوہری بھدوہوی

 کبھی ہے خار مغیلاں کبھی چمیلی ہے

یہ زندگی بھی عجب طرح کی پہیلی ہے 


جدھر بھی دیکھئے وحشت ، اداسی ، سناٹا 

مری حیات اک اجڑی ہوئی حویلی ہے 


شب فراق ! ادھر آ گلے لگا لیں تجھے 

جہاں میں تو بھی ہماری طرح اکیلی ہے 


لٹا دی اپنے بزرگوں کی میں نے کل میراث 

نجومی کہتا ہے روشن مری ہتھیلی ہے 


نہیں ہے تم سے کوئی خوف حادثو ! ہم کو 

سفر سے پہلے دعا ماں کی ہم نے لے لی ہے 


مرے عیال تو فاقہ کشی پہ ہیں مجبور 

مرے ضمیر کی اونچی مگر حویلی ہے 


دعا ہے اے شب ہجراں ! ہو تیری عمر دراز 

مری حیات کی تنہا تو ہی سہیلی ہے 


میں اپنے دور کا موسیٰ ہوں شاید اے صابر !

کہ آفتاب کی صورت مری ہتھیلی ہے 


صابر جوہری بھدوہوی


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...