کھلا کھلا سا یہ گیسو سحاب جیسا ہے
نظر شراب تو چہرہ گلاب جیسا ہے
شفق نجوم بھی مثل حضور لگتے ہیں
یہ ماہتاب بھی عالی جناب جیسا ہے
یہ بھیگے ہونٹ یہ رخسار رس بھری آنکھیں
ترا شباب سراپا شراب جیسا ہے
اے تشنہ کام محبت یہ راہ عشق کی ہے
نظر کا دھوکہ ہے سب کچھ سراب جیسا ہے
تصورات میں بھی میں مہک مہک جاؤں
خیال آپ کا عرق گلاب جیسا ہے
میں ہنس رہا ہوں مگر عارضی ہنسی ہے یہ
ترا فراق مری جاں عذاب جیسا ہے
کھٹاس آئی ہے رشتے میں لاکھ پر انور
نہ ٹوٹا پھر بھی یہ تھوڑی نہ خواب جیسا ہے
ذکی انور مٸوی
No comments:
Post a Comment