Urdu Deccan

Sunday, June 6, 2021

ذکی انور مئوی

 کھلا کھلا سا یہ گیسو سحاب جیسا ہے

نظر شراب تو چہرہ گلاب جیسا ہے


شفق نجوم بھی مثل حضور لگتے ہیں

یہ ماہتاب بھی عالی جناب جیسا ہے


یہ بھیگے ہونٹ یہ رخسار رس بھری آنکھیں

ترا شباب سراپا شراب جیسا ہے


اے تشنہ کام محبت یہ راہ عشق کی ہے

نظر کا دھوکہ ہے سب کچھ سراب جیسا ہے


تصورات میں بھی میں مہک مہک جاؤں

خیال آپ کا عرق گلاب جیسا ہے


میں ہنس رہا ہوں مگر عارضی ہنسی ہے یہ

ترا فراق مری جاں عذاب جیسا ہے


کھٹاس آئی ہے رشتے میں لاکھ پر انور

نہ ٹوٹا پھر بھی یہ تھوڑی نہ خواب جیسا ہے


ذکی انور مٸوی


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...