"خاک چہرے پہ مل رہا ہوں میں"
یعنی خود کو بدل رہا ہوں میں
کل زمینوں پہ حکمرانی تھی
آج ٹکڑوں پہ پل رہا ہوں میں
اور کیا چاہیئے زمانے کو
شمع بن کے تو جل رہا ہوں میں
اے غریبی نثار میں تجھ پر
تیرا نعم البدل رہا ہوں میں
میرا کردار ہی نہیں بدلا
روز کپڑے بدل رہا ہوں میں
چلنا دشوار ہے مگر تابش
تیرے ہمراہ چل رہا ہوں میں
No comments:
Post a Comment