Urdu Deccan

Wednesday, March 17, 2021

جلیل قدوائی

 یوم پیدائش 16 مارچ 1904


زوروں پہ بہت اب مری آشفتہ سری ہے

یہ حال ہے خود سے بھی مجھے بے خبری ہے


جب سے نہیں آغوش میں وہ جان تمنا

اک سل ہے کہ ہر وقت کلیجے پہ دھری ہے


ان کی جو میسر نہیں شاداب نگاہی

پھولوں میں کوئی رنگ نہ سبزے میں تری ہے


مانا کہ محبت کے ہیں دشوار تقاضے

بے یار کے جینا بھی تو اک درد سری ہے


لپکا ہے یہ اک عمر کا جائے گا نہ ہرگز

اس گل سے طبیعت نہ بھرے گی نہ بھری ہے


اک ان کی حقیقت تو مرے دل کو ہے تسلیم

باقی ہے جو کونین میں وہ سب نظری ہے


آنکھوں میں سماتا نہیں اب اور جو کوئی

کیا جانے بصیرت ہے کہ یہ بے بصری ہے


جاگو گے شب غم میں جلیلؔ اور کہاں تک

سوتے نہیں کیوں؟ نیند تو آنکھوں میں بھری ہے


جلیل قدوائی


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...