یوم پیدائش 16 اپریل 1987
بقا کی راہ پہ چل کر فنا سے عشق ہوا
ارے چراغ کو کیسے ہوا سے عشق ہوا؟
کسی کو شاہ کسی کو گدا سے عشق ہوا
کوئی نہیں جسے اپنی رضا سے عشق ہوا
کہاں میں عام سا بندہ کہاں پہ تیرا جنون
مکینِ خاک کو کیوں کبریا سے عشق ہوا؟
تمام شہر ہی گریہ کناں ہے دل کے سبب
تمام شہر کو اُس بے وفا سے عشق ہوا
یہ چاشنی یہ دمک یوں نہیں ہے چہرے پر
خطیبِ حق کو مکمل، خدا سے عشق ہوا
بشر کا جبر مسلط رہے گا دنیا پر
بشر کو خُون میں رنگی رِدا سے عشق ہوا
شہزاد خان
No comments:
Post a Comment