یوم پیدائش 09 اپریل 1957
تم کو یہ پھول کسی کو یہ قمر لگتا ہے
فرق آنکھوں کا یہ قدرت کا ہنر لگتا ہے
سمجھو ایماں کی حرارت ہے ابھی بھی باقی
کچھ تو احساس برائی کا اگر لگتا ہے
سر یہ جھکتا ہے عبادت کے لئے بھی لیکن
دل کہیں ہے تو کہیں پر مرا سر لگتا ہے
ظلم ہوتا ہے پہ ظالم نہیں ملتا کوئی
سب بری ہوتے ہیں انصاف سے ڈر لگتا ہے
موت آتی ہے اسے اور نہ شفا ہی ملتی
یہ تو مظلوم کی آہوں کا اثر لگتا ہے
جرم کرتا ہے کوئی بنتا ہے مجرم کوئی
قتل انصاف کا مجھ کو یہ نظر لگتا ہے
امتیاز علی نظر
No comments:
Post a Comment