نظم مسیحائی
میں نےدیکھا ہےتجھ کو اکثر یوں
خوبصورت سی تیری آنکھوں میں
سرمئ شام کی اداسی ہے
رخ پہ گرد ملال کی صورت
اک پریشاں خیال کی صورت
جانےکس نام کی اداسی ہے
کون سادکھ ہے مضطرب کیوں ہے
کیا کوئی زخم بن گیا ناسور
تو کہ سر تاقدم تھی کیف و سرور
آکہ ہرغم کو تیرے بانٹ لوں میں
اپنا ہردرد سونپ دے مجھ کو
میں مسیحا نہیں مگرجاناں
تیرے ہرزہر غم کوپی لوں گا
تجھ کوخوش دیکھ کر میں جی لوں گا
اپنا سرمایہء نشاط و سرور
میں ترے دل میں سب کےسب رکھ دوں
تیرے زخموں پہ اپنے لب رکھ دوں
انس مسرورانصاری
No comments:
Post a Comment