عناد، بغض و حسد اور نفرتوں کا لہو
رگوں میں دوڑ رہا ہے عداوتوں کا لہو
ہوائے شہر ہوئی جب سے خودسر و ببارک
جنوں زدہ ہوا جاتا ہے چاہتوں کا لہو
صحافتیں ہوئیں جب سے سیاستوں کی غلام
ورق ورق پہ ہے بکھرا حقیقتوں کا لہو
اگر نہ ہوتا یہاں بول بالا رشوت کا
تو رائیگاں نہیں جاتا لیاقتوں کا لہو
ادب کی بزم میں تُک بندیاں! معاذ اللہ
نہیں ہے تاب جو دیکھوں بلاغتوں کا لہو
لہو لہو ہوئی دھرتی لہو لہو آکاش
ہے شش جہات میں بکھرا رفاقتوں کا لہو
جدید فکر و ترقی کے نام پر انساں
بہا رہا ہے مسلسل روایتوں کا لہو
انا کی پیاس بجھانے کے واسطے تم کو
ملا تھا شاؔد ہماری ہی حسرتوں کا لہو
شمشاد شاؔد،
No comments:
Post a Comment