Urdu Deccan

Thursday, June 24, 2021

ضیاء رشیدی

 نفرتوں کا گرم اب بازار ہے 

الفتوں کی گررہی دیوار ہے


شکل و صورت سے نہیں کوئی غرض 

اصل تو انسان کا کردار ہے


ہے کرونا وائرس کیسی وبا 

یار سے ہی بھاگتا اب یار ہے


کیسے آئے نیند اب انسان کو 

ہرطرف لاشوں کا جب انبار ہے


ہر طرف مردوں پہ ماتم دیکھ کر 

خوف میں ڈوبا ہوا سنسار ہے


ہر کوئی اک دوسرے سے بھاگتا 

کون کس کا ا ب یہاں غم خوار ہے


موت کی خبروں کو سن کر اے ضیاء 

دل مرا بھی اب بہت بیزار ہے


ضیاء رشیدی


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...