نفرتوں کا گرم اب بازار ہے
الفتوں کی گررہی دیوار ہے
شکل و صورت سے نہیں کوئی غرض
اصل تو انسان کا کردار ہے
ہے کرونا وائرس کیسی وبا
یار سے ہی بھاگتا اب یار ہے
کیسے آئے نیند اب انسان کو
ہرطرف لاشوں کا جب انبار ہے
ہر طرف مردوں پہ ماتم دیکھ کر
خوف میں ڈوبا ہوا سنسار ہے
ہر کوئی اک دوسرے سے بھاگتا
کون کس کا ا ب یہاں غم خوار ہے
موت کی خبروں کو سن کر اے ضیاء
دل مرا بھی اب بہت بیزار ہے
ضیاء رشیدی

No comments:
Post a Comment