یوم پیدائش 16 جولائی 1947
رکھ دی تھی بایزیدؒ نے بانی سمیٹ کر
حق بول اٹھا تھا "اعظم شانی" سمیٹ کر
امّید اپنی ایک مجاور ہے بے مزار
تھک سی گئی ہے فاتحہ خوانی سمیٹ کر
ہم نےورودِ شعر کی خاطر تمام رات
مانگی زکوٰۃِ فکر، معانی سمیٹ کر
سانسوں کی ڈور ٹوٹی جو کنبے کی فکر میں
وہ جارہا ہے اپنی جوانی سمیٹ کر
شاید کہ اس بہانے تمھیں یاد آئیں گے
پرکھوں کی رکّھو گھر میں نشانی سمیٹ کر
بےحس سماعتیں ہوں تو کیا زیبِ داستاں
بہتر ہے آپ کہئیے کہانی سمیٹ کر
غالبؔ کی عظمتوں کو ہمارا سلام ہے
رکھ دی غزل میں بحرِ معانی سمیٹ کر
سیکھو ظہیر ضبط کا انداز برف سے
قدرت نے خود دکھا دیا پانی سمیٹ کر
ظہیر ناصر
۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
خزانہ دل میں علم وآگہی کا ہم بھی رکھتے ہیں
مٹانے تشنگی مٹّی کا کوزہ ہم بھی رکھتے ہیں
قلندرہیں ہمیں دربارِشاہی سے ھے کیا مطلب
وہاں تک باریابی کا وثیقہ ہم بھی رکھتے ہیں
چمن میں پھولنے پھلنے کا موقع کیوں نہیں حاصل
سرِشاخِ تمنّاآشیانہ ہم بھی رکھتے ہیں
ابھی طاقِ گماں میں کچھ دھواں باقی ھے ماضی کا
یقیں انگیز بنناہوتو سرمہ ہم بھی رکھتے ہیں
نواحِ شہرِ جاں میں آگ برسانے کی خوُ کب تک
بجھانے آگ نوحی پاک دریا ہم بھی رکھتے ہیں
ترے نقشِ قدم ہیں چاند کے سینے پہ، حیرت کیا
اُسے دونیم کرنے کا اشارا ہم بھی رکھتے ہیں
اگر زنخیر ٹوٹے پاسداری کی ظہیر اک دن
ہُنر حلقوں کو پھر سے جوڑنے کا ہم بھی رکھتے ہیں
ظہیر ناصری
No comments:
Post a Comment