یوم پیدائش 14 سپتمبر 1934
اب درد کا سورج کبھی ڈھلتا ہی نہیں ہے
اب دل کوئی پہلو ہو سنبھلتا ہی نہیں ہے
بے چین کئے رہتی ہے جس کی طلب دید
اب بام پہ وہ چاند نکلتا ہی نہیں ہے
اک عمر سے دنیا کا ہے بس ایک ہی عالم
یہ کیا کہ فلک رنگ بدلتا ہی نہیں ہے
ناکام رہا ان کی نگاہوں کا فسوں بھی
اس وقت تو جادو کوئی چلتا ہی نہیں ہے
جذبے کی کڑی دھوپ ہو تو کیا نہیں ممکن
یہ کس نے کہا سنگ پگھلتا ہی نہیں ہے
اختر لکھنوی
No comments:
Post a Comment