یوم پیدائش 30 سپتمبر 1910
خاموشی بحران صدا ہے تم بھی چپ ہو ہم بھی چپ
سناٹا تک چیخ رہا ہے تم بھی چپ ہو ہم بھی چپ
ترک تعلق کر کے زباں سے دل کا جینا مشکل ہے
یہ کیسا آہنگ وفا ہے تم بھی چپ ہو ہم بھی چپ
دل والوں کی خاموشی ہی بار سماعت ہوتی ہے
بے آوازی کرب فضا ہے تم بھی چپ ہو ہم بھی چپ
بھیس بدلتی آوازیں ہی شام و سحر کہلاتی ہے
وقت کا دم کیا ٹوٹ گیا ہے تم بھی چپ ہو ہم بھی چپ
سکتے تک اب آ پہنچا ہے بڑھتے بڑھتے کرب سکوت
ہونٹوں پر کیا وقت پڑا ہے تم بھی چپ ہو ہم بھی چپ
کیسی نرمی کیسی سختی لہجے کی کیا بات کریں
فکر ہی اب غم کردہ صدا ہے تم بھی چپ ہو ہم بھی چپ
جب تک راہ وفا تھی سیدھی زور بیاں تھا عیش سفر
شاید کوئی موڑ آیا ہے تم بھی چپ ہو ہم بھی چپ
پرویز شاہدی
No comments:
Post a Comment