Urdu Deccan

Sunday, October 31, 2021

ریاض مجید

 یوم پیدائش 13 اکتوبر 1942


بدل سکا نہ جدائی کے غم اٹھا کر بھی

کہ میں تو میں ہی رہا تجھ سے دور جا کر بھی


میں سخت جان تھا اس کرب سے بھی بچ نکلا

میں جی رہا ہوں تجھے ہاتھ سے گنوا کر بھی


خدا کرے تجھے دوری ہی راس آ جائے

تو کیا کرے گا بھلا اب یہاں پر آ کر بھی


ابھی تو میرے بکھرنے کا کھیل باقی ہے

میں خوش نہیں ہوں ابھی اپنا گھر لٹا کر بھی


میں اس کو سطح سے محسوس کر کے بھی خوش ہوں

وہ مطمئن ہی نہیں میری تہہ کو پا کر بھی


ابھی تک اس نے کوئی بھی تو فیصلہ نہ کیا

وہ چپ ہے مجھ کو ہر اک طرح آزما کر بھی


اسی ہجوم میں لڑ بھڑ کے زندگی کر لو

رہا نہ جائے گا دنیا سے دور جا کر بھی


وہ لوگ اور ہی تھے جن کا عجز پھل لایا

ہمیں تو کچھ نہ ملا اپنے کو مٹا کر بھی


کھلا یہ بھید کہ تنہائیاں ہی قسمت ہیں

اک عمر دیکھ لیا محفلیں سجا کر بھی


غزل کہے پہ بھی سوچوں کا بوجھ کم نہ ہوا

سکوں نہ مل سکا احوال دل سنا کر بھی


رکا نہ ظلم مرے راکھ بننے پر بھی ریاضؔ

ہوا کی خو تو وہی ہے مجھے جلا کر بھی


ریاض مجید


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...