یوم پیدائش 12 اکتوبر 1976
وہ تھے جب تک تھیں گلستاں آنکھیں
وہ نہیں ہیں تو ہیں خزاں آنکھیں
کاش ہوتیں جو مہرباں آنکھیں
کیوں بھٹکتیں یہاں وہاں آنکھیں
جب سے بچھڑی وہ بدگماں آنکھیں
خون روتی ہیں ناگہاں آنکھیں
وہ تو کہیئے لگا لیا چشمہ
ورنہ کہہ دیتیں داستاں آنکھیں
ہوش میں رہیئے اب جناب دل
ہوگئی ہیں وہ اب جواں آنکھیں
دوستوں! ایک اجنبی کے طفیل
بن گئیں غم کی داستاں آنکھیں
ہر قدم تم سنبھال کر رکھنا
ہر قدم لیں گی امتحاں آنکھیں
تم کھلونا ہو میری ہستی کا
تم سے ہوں ، اور بدگماں آنکھیں
رہ گزار وفا پہ چلتے ہوئے
ہوگئیں گرد کارواں آنکھیں
ہو کوئی غم گسار تو پوچھے
کس لئے ہیں دھواں دھواں آنکھیں
اُٹھ گناہوں پہ گریہ زاری کر
اس سے پہلے ہوں رائیگاں آنکھیں
جو زباں سے کبھی نہیں نکلا
کر گئیں راز وہ بیاں آنکھیں
اب نہیں حال زار پر میرے
تیری پہلی سی مہرباں آنکھیں
آنکھیں آنکھوں سے بات کرتی ہیں
ہیں دلوں کی بھی ہم زباں آنکھیں
وار کرتی ہیں دل پہ یہ قابل
چھوڑتی ہیں کہاں نشاں آنکھیں
آفتاب قابل
No comments:
Post a Comment