یوم پیدائش 24 نومبر 1959
عجب تھا زعم کہ بزم عزا سجائیں گے
مرے حریف لہو کے دیئے جلائیں گے
میں تجربوں کی اذیت کسے کسے سمجھاؤں
کہ تیرے بعد بھی مجھ پر عذاب آئیں گے
بس ایک سجدۂ تعظیم کے تقابل میں
کہاں کہاں وہ جبین طلب جھکائیں گے
عطش عطش کی صدائیں اٹھیں سمندر سے
تو دشت پیاس کے چشمے کہاں لگائیں گے
چھپا کے رکھ تو لیا ہے شرار بو لہبی
دھواں اٹھا تو نظر تک ملا نہ پائیں گے
دراز کرتے رہو دست حق شناس اپنا
بہت ہوا تو وہ نیزے پہ سر اٹھائیں گے
نواح لفظ و معانی میں گونج ہے کس کی
کوئی بتائے یہ امجدؔ کہ ہم بتائیں گے
غفران امجد
No comments:
Post a Comment