Urdu Deccan

Monday, November 29, 2021

عفران امجد

 یوم پیدائش 24 نومبر 1959


عجب تھا زعم کہ بزم عزا سجائیں گے

مرے حریف لہو کے دیئے جلائیں گے


میں تجربوں کی اذیت کسے کسے سمجھاؤں

کہ تیرے بعد بھی مجھ پر عذاب آئیں گے


بس ایک سجدۂ تعظیم کے تقابل میں

کہاں کہاں وہ جبین طلب جھکائیں گے


عطش عطش کی صدائیں اٹھیں سمندر سے

تو دشت پیاس کے چشمے کہاں لگائیں گے


چھپا کے رکھ تو لیا ہے شرار بو لہبی

دھواں اٹھا تو نظر تک ملا نہ پائیں گے


دراز کرتے رہو دست حق شناس اپنا

بہت ہوا تو وہ نیزے پہ سر اٹھائیں گے


نواح لفظ و معانی میں گونج ہے کس کی

کوئی بتائے یہ امجدؔ کہ ہم بتائیں گے


غفران امجد


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...