یوم پیدائش 26 نومبر 1952
مٹی میں ملا دے کہ جدا ہو نہیں سکتا
اب اس سے زیادہ میں ترا ہو نہیں سکتا
دہلیز پہ رکھ دی ہیں کسی شخص نے آنکھیں
روشن کبھی اتنا تو دیا ہو نہیں سکتا
بس تو مری آواز سے آواز ملا دے
پھر دیکھ کہ اس شہر میں کیا ہو نہیں سکتا
اے موت مجھے تو نے مصیبت سے نکالا
صیاد سمجھتا تھا رہا ہو نہیں سکتا
اس خاک بدن کو کبھی پہنچا دے وہاں بھی
کیا اتنا کرم باد صبا ہو نہیں سکتا
پیشانی کو سجدے بھی عطا کر مرے مولیٰ
آنکھوں سے تو یہ قرض ادا ہو نہیں سکتا
دربار میں جانا مرا دشوار بہت ہے
جو شخص قلندر ہو گدا ہو نہیں سکتا
منور رانا
No comments:
Post a Comment