یوم پیدائش 26 جنوری 196
نظم وہ کیسی عورتیں تھیں
جو گیلی لکڑیوں کو پھونک کر چولہا جلاتی تھیں
جو سل پر سرخ مرچیں پیس کر سالن پکاتی تھیں
سحر سے شام تک مصروف لیکن مسکراتی تھیں
بھری دوپہر میں سر اپنا جو ڈھک کر ملنے آتی تھیں
جو پنکھے ہاتھ کے جھلتی تھیں اور بس پان کھاتی تھیں
جو دروازے پہ رک کر دیر تک رسمیں نبھاتی تھیں
پلنگوں پر نفاست سے دری چادر بچھاتی تھیں
بصد اصرار مہمانوں کو سرہانے بٹھاتی تھیں
اگر گرمی زیادہ ہو تو روح افزا پلاتی تھیں
جو اپنی بیٹیوں کو سوئیٹر بننا سکھاتی تھیں
سلائی کی مشینوں پر کڑے روزے بتاتی تھیں
بڑی پلیٹوں میں جو افطار کے حصے بناتی تھیں
جو کلمے کاڑھ کر لکڑی کے فریموں میں سجاتی تھیں
دعائیں پھونک کر بچوں کو بستر پر سلاتی تھیں
اور اپنی جا نمازیں موڑ کر تکیہ لگاتی تھیں
کوئی سائل جو دستک دے اسے کھانا کھلاتی تھیں
پڑوسن مانگ لے کچھ با خوشی دیتی دلاتی تھیں
جو رشتوں کو برتنے کے کئی نسخے بتاتی تھیں
محلے میں کوئی مر جائے تو آنسو بہاتی تھیں
کوئی بیمار پڑ جائے تو اس کے پاس جاتی تھیں
کوئی تہوار ہو تو خوب مل جل کر مناتی تھیں
وہ کیسی عورتیں تھیں
میں جب گھر اپنے جاتی ہوں تو فرصت کے زمانوں میں
انہیں ہی ڈھونڈھتی پھرتی ہوں گلیوں اور مکانوں میں
کسی میلاد میں جزدان میں تسبیح دانوں میں
کسی بر آمدے کے طاق پر باورچی خانوں میں
مگر اپنا زمانہ ساتھ لے کر کھو گئی ہیں وہ
کسی اک قبر میں ساری کی ساری سو گئی ہیں وہ
اسنی بدر
No comments:
Post a Comment