یوم پیدائش 01 فروری 1914
تبسم لب پہ آنکھوں میں محبت کی کہانی ہے
تمہاری ہر ادا میں اک نشاط کامرانی ہے
بہت ہی مختصر اپنی حدیث زندگانی ہے
ترے عارض کے جلوے ہیں مرا خواب جوانی ہے
اسی ساغر میں ساقی دیکھ آب زندگانی ہے
کہ موج مے میں پنہاں راز عمر جاودانی ہے
وہی تنہائی کا عالم وہی ہے یاد پھر ان کی
وہی میں ہوں وہی پھر سوز غم ہائے نہانی ہے
بہار آئی ہے گلشن میں مگر کمھلا گئے غنچے
گلوں کے لب پہ یا رب آج کانٹوں کی کہانی ہے
اجل کو بھی پکارا ہے دعائے زیست بھی کی ہے
کبھی دشت جنوں کی ہم نے منظرؔ خاک چھانی ہے
سید منظر حسن دسنوی
No comments:
Post a Comment