یوم پیدائش 03 مارچ
گو مجھ کو میسر تھیں بہت تیز شرابیں
میں کھینچ کے بیٹھا رہا اِس دل کی طنابیں
خوددار اناؤں کی نظر تک نہیں اُٹھی
اشیاء سے بھری رہ گئیں زردار کی قابیں
خالق کبھی ہو سکتاہے مخلوق کا دشمن ؟
ملّاں ! تیرے کہنے سے عذابیں نہ ثوابیں
اے حُسنِ حیادار ! بتا کیسا ہے پردہ ؟
گر روزِ قیامت کو ہی اُٹھنی ہیں حجابیں
جو ظُلم سہے بس وہی تحریر کئے ہیں
یوں بنتی گئیں اُن سے کتابوں پہ کتابیں
عارف یہاں موسم کے ہیں بدلے ہوۓ تیور
تُو سُرخ گُلابوں کی لگا آیا ہے دابیں
جاوید عارف
No comments:
Post a Comment