یوم پیدائش 28 اپریل 1952
کیا پوچھتے ہو درد کے ماروں کی زندگی
یعنی فلک کے ڈوبتے تاروں کی زندگی
پھیلاؤں ہاتھ جا کے بھلا کس کے سامنے
ہم کو نہیں گوارا سہاروں کی زندگی
ساحل پہ آ کے موج تلاطم سے بارہا
برباد ہو گئی ہے ہزاروں کی زندگی
آتی ہے یاد کیوں مجھے رہ رہ کے آج بھی
گلشن کے دل فریب نظاروں کی زندگی
ہے آندھیوں کا خوف نہ ہے ڈوبنے کا ڈر
مجھ کو نہیں پسند کناروں کی زندگی
کس درجہ خوش گوار ہے تنہائیوں میں آج
سیفیؔ چمکتے چاند ستاروں کی زندگی
سیفی سرونجی
No comments:
Post a Comment