بیتے لمحوں کے خیالات حضر میں رکھنا
اک نئی سوچ کی خوشبو کو سفر میں رکھنا
تیز لہجے میں نہ مانگو نہ ہی فریاد کرو
چپکے چپکے ہی دعاؤں کو اثر میں رکھنا
لوگ وہ کیسے تھے جن کا تھا کشادہ سینہ
روز مہمانوں کو لاکر انھیں گھر میں رکھنا
ڈھونڈتے رہنا فلک چھونے کی راہیں عاجزؔ
تم یقیں اپنا مگر خاک بسر میں رکھنا
No comments:
Post a Comment