یوم پیدائش 28 جولائی 1943
تمہاری یاد ہمیں وصل سے بھی پیاری ہے
دل خزاں زدہ میں باد نو بہاری ہے
نہ اتفاق سے لگ جائے ہاتھ غیروں کے
یہ میرے دل کی جو جاگیر اب تمہاری ہے
تری تو ساتھ کسی کے گزر رہی ہوگی
ترے فراق کی یہ شب جو مجھ پہ بھاری ہے
ہے نظم زیست ہی ابتر ترے غموں کے سبب
وہ غم جو شب کو میں کھاتا تھا اب نہاری ہے
نہ رہ پہ لاسکے تقدیر کی سواری کو
تو روبکاری بھی انساں کی نابکاری ہے
خودی پہ بار نہ ہو جس کی زور دستی کا
بشر پہ رب کا وہ انعام انکساری ہے
لگا رکھا ہے جسے سب نے اپنے تن من سے
حیات فانی تکبر ہے شرمساری ہے
قسم زمانے کی حق پر اگر رہے تلقین
خدائے پاک کا منشور برد باری ہے
No comments:
Post a Comment