Urdu Deccan

Wednesday, August 17, 2022

شاہد صدیقی

یوم وفات 31 جولائی 1962

اے باغباں یہ جبر ہے یا اختیار ہے 
مرجھا رہے ہیں پھول چمن میں بہار ہے 

شاید اسی کا نام غم روزگار ہے 
وہ مل گئے تو اور بھی دل بے قرار ہے 

میں صاحب چمن ہوں مجھے اعتبار ہے 
شام خزاں کے بعد ہی صبح بہار ہے 

رہبر نے قافلے ہی کو مجبور کہہ دیا 
اب وہ قدم بڑھائے جسے اختیار ہے 

کلیاں ہیں زرد زرد فضائیں ہیں سرد سرد 
کچھ لوگ کہہ رہے ہیں یہ فصل بہار ہے 

یوں تو نہ رک سکے گا ستم کا یہ سلسلہ 
جو کشتۂ ستم ہے وہی شرمسار ہے 

دیکھی ہیں میں نے باغ کی وہ حالتیں کہ اب 
میرے لئے خزاں کا نہ ہونا بہار ہے 

ثابت ہوا کہ رونق محفل ہے کوئی اور 
محفل جمی ہوئی ہے مگر انتظار ہے 

ہر صاحب جنوں کا گلستاں پہ حق نہیں 
جس کا لہو بہا ہے اسی کی بہار ہے

شاہد صدیقی


 

No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...