ترے خیال کا نشہ اترتا جاتا ہے
ٹھہر ٹھہر کے کوئی پل گزرتا جاتا ہے
بکھرتی ہے مرے چہرے پہ جتنی پیلاہٹ
اے زندگی ترا چہرہ نکھرتا جاتا ہے
زمیں کو بھوک لگی پھر کسی تمدن کی
یہ کون زینۂ عبرت اترتا جاتا ہے
بتا رہی ہے تھکن تیرے زرد لہجے کی
ترے لہو میں کوئی خواب مرتا جاتا ہے
جسے سجانا تھا ارمان اس کی زلفوں میں
وہ پھول اس کی طلب میں بکھرتا جاتا ہے
No comments:
Post a Comment