نظم قحط پڑا ہے انسان کا
صدیاں صدیاں بہت گئیں تو بھید کھلا
قحط پڑا ہے انسان کا
ریت رواج کہاں تک یکساں چلتے
وہ تو بدلتے رہتے ہیں
ان کو گلے کا ہار بنانا ٹھیک نہیں
لحن سحر آگیں میں جب تک گیت سنانے والوں نے
رس گھولا تھا کانوں میں
تب تک روح بھی بالیدہ تھی
دل بھی تھا مسرور بہت
اب یہ حال چوراہے پر شور ہے غل غپاڑہ ہے
آدمیوں کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے
پھر بھی مجھے لگتا ہے
قحط پڑا ہے انسان کا
No comments:
Post a Comment