آتے جاتے لوگ ہمیں کیوں دوست پرانے لگتے ہیں
چاہت کی اس حد پر یارب ہم تو دوانے لگتے ہیں
پھر سے بہاریں لے کر آئی مہکی ہوئی سی یادوں کو
آ بھی جاؤ اب ملنے کے اچھے بہانے لگتے ہیں
دل کرتا ہے پھر سے دیکھوں کھوئے ہوئے اس منظر کو
پیاسی آنکھوں کو وہ نظارے کتنے سہانے لگتے ہیں
خوشبو وہی ہے رنگ وہی ہے آج وفا کے پھولوں کا
آپ کیا آئے پھر سے چمن میں دن وہ پرانے لگتے ہیں
ٹوٹی ہوئی سی ایک کرنؔ ہے کافی اندھیرے والوں کو
گھر میں اجالا ڈھونڈھنے والے گھر کو سجانے لگتے ہیں
کویتا کرن
No comments:
Post a Comment