توڑ کر ہم بے خودی کی حد خودی تک آ گئے
موت سے کرکے بغاوت زندگی تک آ گئے
اپنی منزل آپ ہی خود آ رہے ہیں اب نظر
ہو نہ ہو ہم آج اپنی روشنی تک آ گئے
اے غم عالم تری اس دل نوازی کے نثار
تیرے نزدیک آ کے جیسے ہر خوشی تک آ گئے
کیوں فضاؤں میں نظر آتے ہیں جلوؤں کے غبار
کیا مہ و خورشید گرد آدمی تک آ گئے
بجھ رہی ہیں جن کی خاطر عشرتیں کونین کی
ایسے غم بھی کچھ ہماری زندگی تک آ گئے
اب محبت کا ہر اک رخ آئنہ بن جائے گا
آج ہم ان کی نگاہ بے رخی تک آ گئے
فطرتاً اب ہو چلا انسان فطرت آشنا
خود گماں سارے یقیں کی روشنی تک آ گئے
شاعری کی راہ میں کرتے ہوئے روشن چراغ
اے شفاؔ ہم بھی مقام زندگی تک آ گئے
شفا گوالیاری
کون آ گیا یہ حشر کا ساماں لئے ہوئے
دامن میں اپنے میرا گریباں لئے ہوئے
ہر ایک غم ہے عیش کا عنواں لئے ہوئے
شام خزاں ہے صبح بہاراں لئے ہوئے
سجدہ ہے میرا ذوق فراواں لئے ہوئے
اٹھے گا اب تو سر در جاناں لئے ہوئے
بعد رہائی بھی نہ میں زنداں سے جاؤں گا
بیٹھا رہوں گا عزت زنداں لئے ہوئے
اب بھی نہ خندہ لب ہوں مرے زخم ہائے دل
وہ مسکرا رہے ہیں نمکداں لئے ہوئے
اے چارہ ساز بیٹھ یہ چارہ گری بھی دیکھ
اٹھے گا میرا درد ہی درماں لئے ہوئے
رنگینیٔ تبسم پیہم نہ پوچھئے
جیسے وہ آ رہے ہوں گلستاں لئے ہوئے
ایسا بھی کاش آئے محبت میں انقلاب
وہ آئیں میری دید کا ارماں لئے ہوئے
کیسی بہار آئی ہے اب کے بہ رنگ نو
ہر ایک گل ہے خون شہیداں لئے ہوئے
امکان سہو ہم سے بھی ممکن ہے اے شفاؔ
انسانیت کا ہم بھی ہیں امکاں لئے ہوئے
شفا گوالیاری
No comments:
Post a Comment