سب سے ہنس کر ہاتھ ملانا سیکھ لیا
جینا کیا سیکھا مر جانا سیکھ لیا
دیواروں پر بستی کی اوقات کھلی
بچوں نے تصویر بنانا سیکھ لیا
کالی پیلی تفسیروں کی زد پر ہوں
خاموشی نے شور مچانا سیکھ لیا
سورج طعنے مارے چندا شرمائے
راتوں نے کاجل پھیلانا سیکھ لیا
آہ سفر دم ماں کے آنسو کل کی بات
اب تو گھر نے ہاتھ ملانا سیکھ لیا
جانے بوجھے لوگ بھی کل کو روتے ہیں
وقت نے شاید لوٹ کے آنا سیکھ لیا
لکڑی کی تلوار کہاں میدان کہاں
شہزادے نے جان چرانا سیکھ لیا
No comments:
Post a Comment