کسی کی یاد سے تپنے لگی سفر کی سڑک
سو گریہ کرتے ہوئے دیکھ، میں نے تر کی سڑک
ٹہل کے اِس پہ تھکن، یاد، غم سے ملتا ہوں
فنا ہو جاتی ہے دن میں یہ رات بھر کی سڑک
میں دل میں سوچوں جو، اس کو سنائی دیتا ہے
براہِ راست اُدھر جاتی ہے اِدھر کی سڑک
شدید پیاس تھی اک جھیل کا پتا تھا مجھے
گئی نہیں مگر اُس سمت، تیرے در کی سڑک
چلوں تو دفن ہوئے لوگ یاد آ تے ہیں
مرے عزیزوں پہ گزری ہے مٹی پر کی سڑک
بہت درخت ہوں، سب پر خزاں بحال رہے
گرے ہوں ہر کہیں پتے، ملے نہ گھر کی سڑک
No comments:
Post a Comment