زمیں کی بات نہ میں آسماں کی بات کروں
لگن ہے دل میں کہ تسخیر کائنات کروں
فریب کھانا تو منظور ہے مگر یا رب
مرا مزاج نہیں ہے کہ میں بھی گھات کروں
مجھے ملے ہیں عجیب و غریب ہمسائے
نہ گفتگو ہی نہ ترک تعلقات کروں
پھر اس کے بعد ہی راحت کی بات سوچوں گا
میں پہلے پار تعصب کے جنگلات کروں
ہر ایک لمحہ نیا زخم دے کے جاتا ہے
بیان کیسے میں بیتابؔ کربِ ذات کروں
No comments:
Post a Comment