Urdu Deccan

Tuesday, November 22, 2022

پروانہ رودولوی

یوم پیدائش 11 نومبر 1933
نظم آج کل

ہر سر میں امتحان کا سودا ہے آج کل 
ہر دل میں فیل ہونے کا دھڑکا ہے آج کل 
پرچوں کے آؤٹ ہونے کا چرچا ہے آج کل 
کوئی نہیں کسی کی بھی سنتا ہے آج کل 
منی کی آنکھ نم ہے تو منا کے دل میں غم 
بے چینیوں میں کوئی کسی سے نہیں ہے کم 
دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے کوئی کتاب 
کوئی یہ سوچتا ہے کہ اب آئے گا عتاب 
پڑھتا ہے رات بھر کوئی جغرافیہ کا باب 
پنسل سے سوختہ پہ ہے لکھتا کوئی جواب 
ہر ذی شعور کھیل کے میداں سے دور ہے 
پڑھنے سے کوئی اور کوئی لکھنے سے چور ہے 
انجم کی آنکھ نم ہے تو فردوس ہیں اداس 
محسنؔ یہ سوچتے ہیں کہ ہوں گے یہ کیسے پاس 
عذرا کی یہ دعا ہے کہ آ جائے رٹنا راس 
ہر ذہن میں ہے خوف تو ہر دل میں ہے ہراس 
کوئی نظر میں موت کا نقشہ لئے ہوئے 
بیٹھا ہے کوئی ہاتھ میں بستہ لئے ہوئے 
کھانے کی فکر ہے نہ ہے فٹ بال کا خیال 
چہرے پہ ہر نفس کے ہے تحریر دل کا حال 
اس بار فیل گر ہوئے جینا ہوا محال 
ابو کے مار پیٹ سے اترے گی میری کھال 
یاروں کو کس طرح سے منہ اپنا دکھائیں گے 
اور کس طرح سے منزل امید پائیں گے 
باقی کچھ ایسے لوگ بھی ہیں اس جہان میں 
جو فرق آنے دیتے نہیں اپنی آن میں 
سینے پھلا پھلا کے نکلتے ہیں شان میں 
جیسے کہ کوئی خطرہ نہ ہو امتحان میں 
یہ لوگ زندہ دل ہیں بہادر ہیں شیر ہیں 
جو فیل ہو کے ہوتے ہیں خوش وہ دلیر ہیں 
پڑھنے کا غم ہے ان کو نہ ہے ان کو فکر دوش 
ہر وقت کھیلتے ہیں پڑھائی کا کس کو ہوش 
آپس میں لڑ بھی لیتے ہیں جب آئے ان کو جوش 
ہنستے ہیں امتحان کے دن یہ کتب فروش 
ان کے لئے زمانہ میں کوئی بھی غم نہیں 
چکنے گھڑے ہیں یہ انہیں کوئی الم نہیں

پروانہ رودولوی


 

No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...