یوم پیدائش 04 جولائی 1908
میں تم کو پوجتا رہا جب تک خودی میں تھا
اپنا ملا سراغ مجھے بے خودی کے بعد
کیا رسم احتیاط بھی دنیا سے اٹھ گئی
یہ سوچنا پڑا مجھے تیری ہنسی کے بعد
گھبرا کے مر نہ جائیے مرنے سے فائدہ
اک اور زندگی بھی ہے اس زندگی کے بعد
آئے ہیں اس جہاں میں تو جانا ضرور ہے
کوئی کسی سے پہلے تو کوئی کسی کے بعد
اے ابر نو بہار ٹھہر پی رہا ہوں میں
جانا برس کے خوب مری مے کشی کے بعد
مرتے تھے جس پہ ہم وہ فقط حسن ہی نہ تھا
یہ راز ہم پہ آج کھلا عاشقی کے بعد
اے موسم بہار ٹھہر آ رہا ہوں میں
دامان چاک چاک کی بخیہ گری کے بعد
میر یٰسین علی خاں
No comments:
Post a Comment