یوم پیدائش 01 جولائی 1921
کاش تم سمجھ سکتیں زندگی میں شاعر کی ایسے دن بھی آتے ہیں
جب اسی کے پروردہ چاند اس پہ ہنستے ہیں پھول مسکراتے ہیں
اب تو میرے شہ پارے جو تم ہی سے تھے منسوب یوں جھلک دکھاتے ہیں
دور ایک مندر میں کچھ دیے مرادوں کے جیسے جھلملاتے ہیں
تم نے کب یہ سمجھا تھا میں نے کب یہ سوچا تھا زندگی کی راہوں میں
چلتے چلتے دو راہی ایک موڑ پر آ کر خود ہی چھوٹ جاتے ہیں
کام حسن کاروں کا آنسوؤں کی ضو دے کر کچھ کنول کھلا دینا
موت حسن کاروں کی جب وہ خود شب غم میں یہ دیے بجھاتے ہیں
تیز تر ہوائیں ہیں موت کی فضائیں ہیں رات سرد و جامد ہے
احمریں ستارے بھی واقعی دوانے ہیں اب بھی مسکراتے ہیں
الوداع اے میری شاہکار نظموں کی زرنگار شہزادی
ماورائے الفت بھی کچھ نئے تقاضے ہیں جو مجھے بلاتے ہیں
سلام ؔمچھلی شہری
No comments:
Post a Comment