یوم پیدائش 01 جولائی 1923
آنکھوں کے خواب دل کی جوانی بھی لے گیا
وہ اپنے ساتھ میری کہانی بھی لے گیا
خم چم تمام اپنا بس اک اس کے دم سے تھا
وہ کیا گیا کہ آگ بھی پانی بھی لے گیا
ٹوٹا تعلقات کا آئینہ اس طرح
عکس نشاط لمحۂ فانی بھی لے گیا
کوچے میں ہجرتوں کے ہوں سب سے الگ تھلگ
بچھڑا وہ یوں کہ ربط مکانی بھی لے گیا
تھے سب اسی کے لمس سے جل تھل بنے ہوئے
دریا مڑا تو اپنی روانی بھی لے گیا
اب کیا کھلے گی منجمد الفاظ کی گرہ
وہ ہمت کشود معانی بھی لے گیا
سر جوشیٔ قلم کو فضاؔ چپ سی لگ گئی
وہ جاتے جاتے شعلہ بیانی بھی لے گیا
فضا ابن فیضی
No comments:
Post a Comment