یوم پیدائش 12 جنوری
دل یونہی شدتِ جذبات سے بھر آیا ہے
ورنہ کب کوئی لہو آنکھ میں در آیا ہے
مدعا ساتھ لئے دیدہء تر آیا ہے
تب کہیں جا کے دعاؤں میں اثر آیا ہے
کشمکش جاری ہے اور اذنِ سفر آیا ہے
فہم و ادراک میں خیر آیا نہ شر آیا ہے
''میں نے سوچا تھا کہ ہر دل میں اُتر جاؤں گا''
درد ہر دل کا مرے دل میں اُتر آیا ہے
غم نے ویرانیء جاں کو مری آباد کیا
آج پھر گھر کا مکیں لوٹ کے گھر آیا ہے
جھلملاتی ہے کوئی روشنی تاریکی میں
کوئی راہی تو سرِ راہگزر آیا ہے
عہد ِ ماضی کے جھروکوں سے تصور تیرا
یک بیک صفحہء ہستی پہ اُبھر آیا ہے
ایک منزل ہے رسائی جہاں آسان نہیں
ایک دیوانہ ہے جو خاک بسر آیا ہے
میں یقیناً یہاں تنہا تو نہیں ہوں عارفؔ
مجھے مجھ سا بھی کوئی اور نظر آیا ہے
سید وحید القادری عارفؔ
No comments:
Post a Comment