کچھ زمیں لیتا چلوں کچھ آسماں لیتا چلوں
جب جہاں سے جاؤں میں حسنِ جہاں لیتا چلوں
ہے بھٹک جانے کا اندیشہ مجھے گھیرے ہوئے
ساتھ اپنے اپنا میرِ کارواں لیتا چلوں
دشتِ تنہائی میں کوئی ساتھ جب دیتا نہیں
میں پریشانی میں گردِ کارواں لیتا چلوں
کون جانے کس گھڑی آجائے موجوں کا جلوس
اپنی کشتی کے لیے میں بادباں لیتا چلوں
رفتہ رفتہ زخم سارے مندمل ہوجائیں گے
میں پرانے زخمِ دل کے کچھ نشاں لیتا چلوں
اک صدائے خامشی کے درمیاں زندہ ہوں میں
زندگی تو ہی بتا تجھ کو کہاں لیتا چلوں
No comments:
Post a Comment