دل گیا شوخئ گفتار کہاں سے لاؤں
اب وہ پیرایۂ اظہار کہاں سے لاؤں
قصۂ گردش دوراں سے ابھی ہوش نہیں
داستان لب و رخسار کہاں سے لاؤں
التجا کے لئے اپنوں سے تکلف ہے مجھے
شیوۂ منت اغیار کہاں سے لاؤں
شرکت غیر محبت میں گوارا کر لوں
اس قدر جذبۂ ایثار کہاں سے لاؤں
آتش ہجر کے تپتے ہوئے صحراؤں میں
راحت سایۂ دیوار کہاں سے لاؤں
تو ہے نزدیک رگ جاں مگر اے حسن تمام
تیرا جلوہ ترا دیدار کہاں سے لاؤں
بزمؔ مہلت نہیں دیتے مجھے افکار جہاں
فرصت کثرت اشعار کہاں سے لاؤں
No comments:
Post a Comment