عجیب قسم کا پیکر ہوا میں اڑتا تھا
کل اِک پرندۂ بے پَر ہوا میں اڑتا تھا
ذراسی دیر میں سورج لہو لہان ہوا
نہ جانے کون ساخنجر ہوا میں اڑتا تھا
میں قتل گاہ ہوسِ میں پڑا ہوا تھا مگر
ترپ تڑپ کے مرا سَر ہوا میں اڑتا تھا
حصارِخون میں سمٹی ہوئی تھی روح مگر
میں اپنے جسم کے باہر ہوا میں اڑتا تھا
چہارسمت مسلط سیاه آندھی تھی
کسی کا برگِ مقدر ہوا میں اڑتا تھا
سپاهِ شورسے پامال تھا محاذِ خلاء
سکوت مرگ کا لشکر ہوا میں اڑتا تھا
سفید جھوٹ کے مانند کتنا روشن تھا
سیاہ سچ کا جو پیکر ہوا میں اڑتا تھا
تمام کوہ نظر آرہے تھے زیرِ زمیں
مگر ہرایک سمندر ہوا میں اڑتا تھا
کچھ اتنا تیز تھا طوفان برف باری کا
کہ ہر چٹان کا پتھر ہوا میں اڑتا تھا
جنابِ کیف یہ معراج شاعری تو نہیں
کہ رات ذہنِ سخنور ہوا میں اڑتا تھا
کیف احمد صدیقی
کیا جانے کتنے ہی رنگوں میں ڈوبی ہے
رنگ بدلتی دنیا میں جو یک رنگی ہے
منظر منظر ڈھلتا جاتا ہے پیلا پن
چہرہ چہرہ سبز اداسی پھیل رہی ہے
پیلی سانسیں بھوری آنکھیں سرخ نگاہیں
عنابی احساس طبیعت تاریخی ہے
دیکھ گلابی سناٹوں میں رہنے والے
آوازوں کی خاموشی کتنی کالی ہے
آج سفیدی بھی کالا ملبوس پہن کر
اپنی چمکتی رنگت کا ماتم کرتی ہے
ساری خبروں میں جیسے اک زہر بھرا ہے
آج اخباروں کی ہر سرخی نیلی ہے
کیفؔ کہاں تک تم خود کو بے داغ رکھو گے
اب تو ساری دنیا کے منہ پر سیاہی ہے
کیف احمد صدیقی
No comments:
Post a Comment