نہ قہقہہ نہ تبسم نہ اشک پیہم ہے
جہاں پہ ہم ہیں وہاں کچھ عجیب عالم ہے
جو پہلے آج سے تھا آج بھی وہی غم ہے
یہ دور جام نہیں ہے فریب پیہم ہے
برا نہ مانو تو اک بات تم سے عرض کروں
تمہارا لطف بہ اندازۂ ستم کم ہے
یہ صبح و شام کی مستی یہ نشۂ شب و روز
ترے بغیر کوئی کیف ہو مجھے سم ہے
سر نیاز کبھی اس کے سامنے نہ جھکا
اسی قصور پہ ہم سے زمانہ برہم ہے
ہے بات بات پہ ہجو سبو و ساغر و مے
جناب حضرت واعظ سے ناک میں دم ہے
نگاہ ناز کو تکلیف التفات نہ دو
کہ اب تو زخم جگر بے نیاز مرہم ہے
خطا ضرور کوئی اس سے بھی ہوئی ہوگی
کہ آخر آسیؔ خستہ بھی ابن آدم ہے
No comments:
Post a Comment