دھنک کے رنگ چُرا لیں ہمارا بس جو چلے
تری ہتھیلی میں ڈالیں ہمارا بس جو چلے
بنا کے وقت کا کوئی وجود سورج سا
اسے ڈبوئیں نکالیں ہمارا بس جو چلے
یہ چاند گیند کے جیسے اچھالتے جائیں
ستارے جیب میں ڈالیں ہمارا بس جو چلے
تمہیں پہن لیں ہم اپنے وجود کے اوپر
تمہیں لباس بنا لیں ہمارا بس جو چلے
تمہاری مٹی کو گوندھیں ھم اپنی مٹی میں
پھر ایک جسم میں ڈھالیں ہمارا بس جو چلے
زمیں نے باندھ کے رکھا ہے جس کشش سے یہ چاند
تمہیں یوں خود سے لگا لیں ہمارا بس جو چلے
یہ کارِ عشق جنوں ہے، نہ جان شیشہ گری
تمہیں تو نوچ کے کھا لیں ہمارا بس جو چلے
فراق در پہ بوقتِ وصال آ پہنچے
تو اگلے سال پہ ٹالیں ہمارا بس جو چلے
No comments:
Post a Comment