یوم پیدائش 20 جنوری 1925
گھٹن عذاب بدن کی نہ میری جان میں لا
بدل کے گھر مرا مجھ کو مرے مکان میں لا
مری اکائی کو اظہار کا وسیلہ دے
مری نظر کو مرے دل کو امتحان میں لا
سخی ہے وہ تو سخاوت کی لاج رکھ لے گا
سوال عرض طلب کا نہ درمیان میں لا
دل وجود کو جو چیر کر گزر جائے
اک ایسا تیر تو اپنی کڑی کمان میں لا
ہے وہ تو حد گرفت خیال سے بھی پرے
یہ سوچ کر ہی خیال اس کا اپنے دھیان میں لا
بدن تمام اسی کی صدا سے گونج اٹھے
تلاطم ایسا کوئی آج میری جان میں لا
چراغ راہ گزر لاکھ تابناک سہی
جلا کے اپنا دیا روشنی مکان میں لا
بہ رنگ خواب سہی ساری کائنات اکبرؔ
وجود کل کو نہ اندیشۂ گمان میں لا
اکبر حیدرآبادی
No comments:
Post a Comment