یوم پیدائش 07 جنوری 1944
بے نام آدمی جو سر شام مرگیا
سورج کے شہر میں وہ اندھیرا ہی کر گیا
انسان جب حدود مکاں سے گزر گیا
حیران ہو کے وقت جہاں تھا ٹھہر گیا
کچلا ہے اس کو وقت کے پہیوں نے اس طرح
آئینہ دیکھتے ہی اچانک وہ ڈر گیا
اپنی انا کے ریزے ہی لایا سمیٹ کر
پتھر کے دیش میں جو کبھی شیشہ گر گیا
کل تک جو چل رہا تھا لیے ہاتھ میں چراغ
جانے کہاں وہ آج مرا ہمسفر گیا
کل تک زمیں پہ تھا جو خداوند کی طرح
آج اس کو دیکھئے کہ خلا میں بکھر گیا
غافل کو ڈھونڈھئے بھی تو پائیں گے اب کہاں
دیوانہ آدمی تھا نہ جانے کدھر گیا
زبیر الحسن غافل
No comments:
Post a Comment