یوم پیدائش 01 جنو ری 1957
آتشِ غم سے گزر گاہِ نفس جلتی ہے
قہرِ ظالم سے بھی دیوار قفس جلتی ہے
ایک سی آگ لگی رہتی ہے دل کے اندر
خود کی تکمیل میں انساں کی ہوس جلتی ہے
زندگی سب کی گزر جاتی ہے روتے ہنستے
زیست کی شمع تو ہر حال میں بس جلتی ہے
آتشِ عشق بھی کیا چیز ہے اے اہل خرد
جب یہ لگتی ہے تو پھر برسوں برس جلتی ہے
یوں چراغاں نہیں ہوتا ہے درِ ہستی پر
روشنی ہوتی ہے جب روحِ مگس جلتی ہے
دل کی دہلیز پہ اے نصرؔ یہ دستک کیسی
میرے کانوں میں بھی کیا بانگِ جرس جلتی ہے
ایم نصر اللہ نصر
No comments:
Post a Comment