انا کی فصل پہ دُگنا لگان دیتے ہوئے
کٹی ہے عمر یہی امتحان دیتے ہوئے
نظر چرا کے وہ گزرا ہے آج رستے سے
جسے خوشی تھی کبھی مجھ پہ جان دیتے ہوئے
محاذِ جنگ پہ سب جا چکے تو یاد آیا
وہ تیر بھول گیا تھا کمان دیتے ہوئے
یہ سانحہ بھی فقط قابلِ مذمت ہے
یہ حاکموں نے کہا ہے بیان دیتے ہوئے
مجھے یقین ہے عہدِ وفا بھلا دے گا
بدل رہا تھا وہ نظریں زبان دیتے ہوئے
خدا کی ساری رضائیں خرید لیں اُس نے
دہکتی ریت پہ کل خاندان دیتے ہوئے
پرندے خوفزدہ ہیں علی رضا نجمیِ
امان ان سے نہ چھینو اڑان دیتے ہوئے
No comments:
Post a Comment