Urdu Deccan

Friday, January 13, 2023

اقبال بیدار

یوم پیدائش 04 جنوری 1934

مہر و الفت کا ترانہ اک فسانہ ہو گیا 
محو حیرت ہوں کہ کیا سے کیا زمانہ ہو گیا 

شوخیاں بیباکیاں سب رفتہ رفتہ کم ہوئیں 
التفات یار جب سے سوقیانہ ہو گیا

دھمکیوں کے سائے میں اب دیش چل سکتا نہیں 
داؤ یارو یہ سیاست کا پرانا ہو گیا 

گردش ایام نے چھوڑا کہاں لا کر مجھے 
جو کہانی تھی مری ان کا فسانہ ہو گیا 

واقعات عمر رفتہ یاد سب آنے لگے 
زندگی سے پھر مرا رشتہ پرانا ہو گیا 

اک سکوں دل کو ملا اور روح کو راحت ملی 
جب تعارف ان سے میرا غائبانہ ہو گیا 

روک سکتے ہیں کہاں وہ قیمتیں پٹرول کی 
تیل پر دشمن کا قبضہ غاصبانہ ہو گیا 

آپ کے آتے ہی گھر میں رونقیں بڑھنے لگیں 
آج کا بیدارؔ موسم بھی سہانا ہو گیا 

اقبال بیدار



No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...