مہر و الفت کا ترانہ اک فسانہ ہو گیا
محو حیرت ہوں کہ کیا سے کیا زمانہ ہو گیا
شوخیاں بیباکیاں سب رفتہ رفتہ کم ہوئیں
التفات یار جب سے سوقیانہ ہو گیا
دھمکیوں کے سائے میں اب دیش چل سکتا نہیں
داؤ یارو یہ سیاست کا پرانا ہو گیا
گردش ایام نے چھوڑا کہاں لا کر مجھے
جو کہانی تھی مری ان کا فسانہ ہو گیا
واقعات عمر رفتہ یاد سب آنے لگے
زندگی سے پھر مرا رشتہ پرانا ہو گیا
اک سکوں دل کو ملا اور روح کو راحت ملی
جب تعارف ان سے میرا غائبانہ ہو گیا
روک سکتے ہیں کہاں وہ قیمتیں پٹرول کی
تیل پر دشمن کا قبضہ غاصبانہ ہو گیا
آپ کے آتے ہی گھر میں رونقیں بڑھنے لگیں
آج کا بیدارؔ موسم بھی سہانا ہو گیا
No comments:
Post a Comment