چار دن کی یہ زندگانی ہے
ہنستے گاتے ہمیں بتانی ہے
ہاتھ آئے نہ پھر حسیں موقع
کچھ ہی لمحوں کی تو جوانی ہے
زندگی کی بقا تری تب تک
جب تلک خون میں روانی ہے
آؤ اک دوسرے میں کھو جائیں
ایسی رت پھر کبھی نہ آنی ہے
قلت گل بہار کا موسم
باغباں کی یہ مہر بانی ہے
حسرت و یاس میں کٹے شب و روز
دوستو! یہ مری کہانی ہے
بھول جاؤں گا کس طرح جاناں
تیری یادوں سے زندگانی ہے
اب ہے ہمدم نہ ہمسفر کوئی
عمریوسف یونہی بتانی ہے
No comments:
Post a Comment