یہ دل مرا جیتا نہیں ، ہارا بھی نہیں ہے
تجھ ہجر کے گھائو کا مداوا بھی نہیں ہے
پوچھا جو نہیں اس نے مرا حال تو پھر کیا
دریا کی کوئی پیاس بجھاتا بھی نہیں ہے
وحشت نے نئے رنگ بھرے آنکھ میں تیری
کیا ذکر ہو دریا کا کہ صحرا بھی نہیں ہے
اتنی تو سہولت تھی مرے خواب سجاتا
افسوس ! تُو اب خواب میں آتا بھی نہیں ہے
یہ بات بجا ، وجہِ سکوں ڈھونڈ رہا ہوں
یہ بات الگ ، اور گوارا بھی نہیں ہے
ہر رنگ جو ملتا ہے قمر ، رنگ میں تیرے
آنکھوں میں کوئی رنگ سمایا بھی نہیں ہے
قمر نیاز
No comments:
Post a Comment